Tuesday 26 September 2017

شوق کو بے ادب کیا عشق کو حوصلہ دیا

شوق کو بے ادب کیا عشق کو حوصلہ دیا 
عذرِ نگاہِ دوست نے جرمِ نظر سکھا دیا 
ان کے تصورات سے عشق کا جگمگا دیا
آئی تھی شامِ غم مگر میں نے سحر بنا دیا
آہ وہ بد نصیب آہ نالۂ عندلیب آہ 
میرا فسانۂ الم جیسے مجھے سنا دیا 
ٹوٹ سکا نہ پستئ فکر و نظر کا سلسلہ 
دام و قفس کو ہم نے خود دام و قفس بنا دیا 
میرے مذاقِ دید کی شرم اسی کے ہاتھ ہے 
جس نے شعاعِ حسن کو حسنِ نظر بنا دیا 
ناز و نیاز آشنا، لطف تغافل اعتبار 
ہائے کس اہتمام سے تم نے مجھے مٹا دیا 
خوب علاج کر دیا اپنے مریضِ عشق کا 
درد مٹانے آئے تھے، درد دیا، مٹا دیا 
ہائے وہ حسن و عشق جب باسط بیقرار کو 
برقِ نگاهِ دوست نے پھونک دیا، جلا دیا 

باسط بھوپالی

No comments:

Post a Comment