Wednesday 20 September 2017

ہم کہ جو ہر ابر کو ابر کرم سمجھا کیے

ہم کہ جو ہر ابر کو ابرِ کرم سمجھا کیے
آ گئے اس دیس میں اور دھوپ کو ترسا کیے
اُس نے اپنے منہ پہ انگلی رکھ کے آنکھیں بند کیں
میں نے کچھ کہنے کو اپنے ہونٹ جونہی وا کیے
روز لگ جاتے ہیں اس کے صحن میں کاغذ کے ڈھیر
مستعد خط لکھنے والوں سے زیادہ ڈاکیے
ایک سورج کے لیے یہ کہکشاں در کہکشاں
اک زمیں کے واسطے سو آسماں پیدا کیے
خیر ہو چارہ گری کی میرے چارہ گر تجھے
مدتیں گزریں کسی بیمار کو اچھا کیے

باصر کاظمی

No comments:

Post a Comment