Wednesday 20 September 2017

اب کس سے کہیں بھول گئے ہیں نگر اپنا

اب کس سے کہیں بھول گئے ہیں نگر اپنا
جنگل کے اندھیروں میں کٹا ہے سفر اپنا
بدلیں جو ہوائیں تو پلٹ کر وہیں آئے
ڈھونڈا انہی شاخوں میں پرندوں نے گھر اپنا
پھولوں سے بھرے کنج تو اک خواب ہی ٹھہرے
یہ سایۂ دیوارِ خزاں ہے مگر اپنا
آنکھوں سے الجھنے لگے بیتے ہوئے موسم
کیا نام لکھیں شہر کی دیوار پر اپنا
خاموش فصیلوں پہ ہمکتی ہوئی بیلیں
دِکھلا ہی دیا موسمِ گل نے اثر اپنا

ثروت حسین

No comments:

Post a Comment