اب کس سے کہیں بھول گئے ہیں نگر اپنا
جنگل کے اندھیروں میں کٹا ہے سفر اپنا
بدلیں جو ہوائیں تو پلٹ کر وہیں آئے
ڈھونڈا انہی شاخوں میں پرندوں نے گھر اپنا
پھولوں سے بھرے کنج تو اک خواب ہی ٹھہرے
آنکھوں سے الجھنے لگے بیتے ہوئے موسم
کیا نام لکھیں شہر کی دیوار پر اپنا
خاموش فصیلوں پہ ہمکتی ہوئی بیلیں
دِکھلا ہی دیا موسمِ گل نے اثر اپنا
ثروت حسین
No comments:
Post a Comment