کوئی نشاں سرِ دیوار و بام اپنا نہیں
کسی نگر، کسی بن میں قیام اپنا نہیں
ہوا کے ساتھ ہوا، بارشوں میں بارش ہیں
کسی شجر کسی پتے پہ نام اپنا نہیں
تلاش دل کو بیابانِ شامِ ہجراں کی
کبھی کبھی کوئی بادل گزر ہی جاتا ہے
نہیں کہ سلسلۂ صبح و شام اپنا نہیں
بہت سے لوگ ہیں آشفتہ کار و خاک بسر
جہاں تلک ہے یہ صحرا تمام اپنا نہیں
ثروت حسین
No comments:
Post a Comment