Monday 18 September 2017

ساغر چڑھائے پھول کے ہر شاخسار نے

ساغر چڑھائے پھول کے ہر شاخسار نے
دریا بہا دیئے خُمِ ابر بہار نے
روشن کئے چراغِ لحد لالہ زار نے
اس مرتبہ تو آگ لگا دی بہار نے
اودی گھٹائیں چھائی ہیں اے مۓ کشو چلو
پریوں کے تخت روک لیے سبزہ زار نے
اتنا تو ہم بھی جانتے ہیں ایک آہ کی
بے آس ہو کے اس دلِ امیدوار نے
سینہ تک آئے سوتے میں کب میری دستِ شوق
دھوکا دیا تجھے تیرے پھولوں کے ہار نے
صبحِ شبِ وصال مجھے منفعل کیا
تُو نے تو کیا تِری نگہِ شرمسار نے
بے شغل جام و بادہ جواں ہو گئے ریاض
ڈالا اثر یہ آمدِ فصل بہار نے 

ریاض خیر آبادی

No comments:

Post a Comment