دیدۂ بے رنگ میں خوں رنگ منظر رکھ دئیے
ہم نے اس دشتِ تپاں میں بھی سمندر رکھ دئیے
وہ جگہ جو لعل و گوہر کے لیے مقصود تھی
کس نے یہ سنگِ ملامت اس جگہ پر رکھ دئیے
اب کسی کی چیخ کیا ابھرے کہ میرِ شہر نے
شاخساروں پر نہ جب اذنِ نشیمن مل سکا
ہم نے اس اپنے آشیاں دوشِ ہوا پر رکھ دئیے
اہلِ زر نے دیکھ کر کم ظرفئ اہلِ قلم
حرصِ زر کے ہر ترازو میں سخنور رکھ دئیے
ہم تو ابریشم کی صورت نرم و نازک تھے مگر
تلخئ حالات نے لہجے میں خنجر رکھ دئیے
جس ہوا کو وہ سمجھتے تھے کہ چل سکتی نہیں
اس ہوا نے کاٹ کر لشکر کے لشکر رکھ دئیے
بخشؔ صیادِ ازل نے حکمِ آزادی کے ساتھ
اور اسیری کے بھی خدشے دل کے اندر رکھ دئیے
بخش لائلپوری
No comments:
Post a Comment