Wednesday, 20 September 2017

اب اس سے پہلے کہ تن من لہو لہو ہو جائے

اب اس سے پہلے کہ تن من لہو لہو ہو جائے
لہو سے قبل شہادت چلو وضو ہو جائے
قریب دیدہ و دل اس قدر جو تو ہو جائے
تو کیا عجب تِری تعریف میں غلو ہو جائے
بھلے ہی ہوتی ہے دنیا تمام، ہو جائے
خدانخواستہ میرے خلاف تو ہو جائے
میں اپنا فون کبھی بند ہی نہیں رکھتا
نہ جانے کب اسے توفیقِ گفتگو ہو جائے
تمہاری چشم کرم ہی سے ہے بھرم دل کا
وہ دن نہ آئے کہ یہ جام، بے سبو ہو جائے
ملے ملے نہ ملے فرصت و فراغت پھر
چلو یہیں کہیں کچھ دیر ہاؤ ہو، ہو جائے
دماغ اس کا سنا ہے کہ آسمان پہ ہے
مِری زمین پہ چل کر لہو لہو ہو جائے
رؤف خیرؔ کسی پر کبھی نہیں کھلنا
جو آج یار ہے ممکن ہے کل عدو ہو جائے

رؤف خیر

No comments:

Post a Comment