اب اس سے پہلے کہ تن من لہو لہو ہو جائے
لہو سے قبل شہادت چلو وضو ہو جائے
قریب دیدہ و دل اس قدر جو تو ہو جائے
تو کیا عجب تِری تعریف میں غلو ہو جائے
بھلے ہی ہوتی ہے دنیا تمام، ہو جائے
میں اپنا فون کبھی بند ہی نہیں رکھتا
نہ جانے کب اسے توفیقِ گفتگو ہو جائے
تمہاری چشم کرم ہی سے ہے بھرم دل کا
وہ دن نہ آئے کہ یہ جام، بے سبو ہو جائے
ملے ملے نہ ملے فرصت و فراغت پھر
چلو یہیں کہیں کچھ دیر ہاؤ ہو، ہو جائے
دماغ اس کا سنا ہے کہ آسمان پہ ہے
مِری زمین پہ چل کر لہو لہو ہو جائے
رؤف خیرؔ کسی پر کبھی نہیں کھلنا
جو آج یار ہے ممکن ہے کل عدو ہو جائے
رؤف خیر
No comments:
Post a Comment