Friday 3 August 2012

کسی نے اس کو سمجھایا تو ہوتا

کسی نے اس کو سمجھایا تو ہوتا
کوئی یاں تک اُسے لایا تو ہوتا
مزہ رکھتا ہے زخمِ خنجرِ عشق
کبھی اے بُوالہوس! کھایا تو ہوتا
نہ بھیجا تُو نے لِکھ کر ایک پرچہ
ہمارے دل کو پرچایا تو ہوتا
کہا عیسیٰؑ نے قُم کُشتے کو تیرے
کچھ اب تُو نے بھی فرمایا تو ہوتا
نہ بولا، ہم نے کھڑکایا بہت دَر
ذرا درباں کو کھڑکایا تو ہوتا
یہ نخلِ آہ ہوتا بید ہی کاش
نہ ہوتا گو ثمر سایا تو ہوتا
جو کچھ ہوتا سو ہوتا تُو نے تقدیر
وہاں تک مجھ کو پہنچایا تو ہوتا
کیا کِس جُرم پر تُو نے مجھے قتل
ذرا تو دل میں شرمایا تو ہوتا
کیا تھا گر مریضِ عشق مجھ کو
عیادت کو کبھی آیا تو ہوتا
دل اُسکی زُلف میں اُلجھا ہے کب سے
ظفرؔ! اِک روز سُلجھایا تو ہوتا

 بہادر شاہ ظفر

No comments:

Post a Comment