Thursday, 2 August 2012

کیا جانے کس کی پیاس بجھانے کدھر گئیں

کیا جانے کِس کی پیاس بُجھانے کِدھر گئیں
اِس سَر پہ جھُوم کے جو گھٹائیں گُزر گئیں
دیوانہ پوچھتا ہے یہ لہروں سے بار بار
کچھ بستیاں یہاں تھیں، بتاؤ! کِدھر گئیں؟
اب جس طرف سے چاہے گُزر جائے کارواں
ویرانیاں تو سب مِرے دل میں اُتر گئیں
پیمانہ ٹُوٹنے کا کوئی غم نہیں مُجھے
غم ہے تو یہ کہ چاندنی راتیں بِکھر گئیں
پایا بھی اُن کو کھو بھی دیا چُپ بھی یہ ہو رہے
اِک مختصر سی رات میں صدیاں گُزر گئیں

کیفی اعظمی

No comments:

Post a Comment