شور یُونہی نہ پرِندوں نے مچایا ہو گا
کوئی جنگل کی طرف شہر سے آیا ہو گا
پیڑ کے کاٹنے والوں کو یہ معلوم تو ہو گا
جسم جل جائیں گے جب سر پہ نہ سایہ ہو گا
بانیٔ جشنِ بہاراں نے یہ سوچا بھی نہیں
بجلی کے تار پہ بیٹھا ہوا ہنستا پنچھی
سوچتا ہے کہ وہ جنگل تو پرایا ہو گا
اپنے جنگل سے جو گھبرا کے اُڑے تھے پیاسے پیاسے
ہر سراب، اُن کو سمندر نظر آیا ہو گا
کیفی اعظمی
No comments:
Post a Comment