Thursday 2 August 2012

اتنا تو زندگی میں کسی کی خلل پڑے

اِتنا تو زندگی میں کسی کی خلل پڑے
ہنسنے سے ہو سکون نہ رونے سے کَل پڑے
جس طرح ہنس رہا ہوں میں پی پی کے گرم اشک
یُوں دُوسرا ہنسے تو کلیجا نِکل پڑے
اِک تُم کہ تُم کو فکرِ نشیب و فراز ہے
اِک ہم کہ چل پڑے تو بہرحال چل پڑے
ساقی سبھی کو ہے غمِ تشنہ لبی، مگر
مے ہے اُسی کی نام پہ جس کے اُبل پڑے
مُدّت کے بعد اُس نے جو کی لُطف کی نگاہ
جی خوش تو ہو گیا، مگر آنسو نِکل پڑے

کیفی اعظمی

No comments:

Post a Comment