Friday 3 August 2012

دم بدم ساقی و مطرب کو صدا دیتے ہیں

دم  بدم، ساقی و مطرب کو صدا دیتے ہیں
موسمِ گُل میں ہم اِک دُھوم مچا دیتے ہیں
جنسِ دل آپ گراں سمجھے ہیں اِک بوسے پر
دھیان اتنا نہیں کیا لیتے ہیں، کیا دیتے ہیں
ہم وہ بسمل ہیں کہ ٹھنڈے نہیں ہوتے جب تک
دامنِ زخم سے قاتل کو ہوا دیتے ہیں
نزع میں ہوں مِری بالِیں سے نہ اُٹھیے للہ
آپ کس وقت میں بندے کو دغا دیتے ہیں
کون سُنتا ہے تِری جوشِ جنُوں میں ناصح
خضرؑ بھی آئیں تو ہم راہ بتا دیتے ہیں
صاف قلقل سے صدا آتی ہے آمیں، آمیں
اپنے ساقی کو جو ہم رِند دُعا دیتے ہیں
یہ نئے طور کا انصاف ہے اُن کے گھر میں
غیر کرتے ہیں خطا، ہم کو سزا دیتے ہیں
ہم بھی تاصبح لیے جائیں گے بوسے شبِ وصل
گالیاں دیکھیں تو وہ تا بہ کجا دیتے ہیں
چاندنی راتوں میں اکثر تِرے در پر آ کر
تجھ کو آواز ہم اے ماہ لقا دیتے ہیں
جب میں روتا ہوں تو اللہ رے ہنسنا اُن کا
قہقہوں میں مِرے نالوں کو اڑا دیتے ہیں
خط کے آنے سے نہ کچھ حُسن پہ حرف آئے گا
ہم نوشتہ تجھے، اے مہر لقا، دیتے ہیں
روبرو اُن کے صباؔ کی جو غزل گاتا ہے
چُٹکیوں میں وہ مغنّی کو اڑا دیتے ہیں

 صبا لکھنوی

No comments:

Post a Comment