بڑھا لے اپنی سواری نہ اب دکان لگا
وہ صور پھونک رہا ہے زمیں سے کان لگا
بدن کی قید سے باہر نکلنا ہے تجھ کو
پہاڑ کاٹنا مشکل ہے دوست، جان لگا
سلگتی ریت پہ آ کر گِرا وجود اس کا
مہ و نجوم بدلتے ہیں روشنی کیسے
فلک کو دیکھتے رہنے میں اپنا دھیان لگا
جوے میں ہاری ہوئی چیز مل نہیں سکتی
کہا تھا کس نے کہ داؤ پہ اپنی جان لگا
پھر ایک روز قبیلے کی اپنے دعوت کر
غذا میں زہر ملا کر لذیذ خوان لگا
فلک پہ کھینچ لکیریں اداس منظر کی
زمینِ دل پہ نہ یوں بے طرح نشان لگا
بنا رہا ہے جو تصویرِ کائنات آزؔر
خلا و خاک کے مابین آسمان لگا
دلاور علی آزر
No comments:
Post a Comment