قلم کی نوک جہاں کامیاب ٹھہرے گی
لہو لکیر، خطِان قلاب ٹھہرے گی
کبھی تو ہجر زدوں کا نصیب جاگے گا
کبھی تو آنکھ گنہگارِ خواب ٹھہرے گی
کسی کے ہاتھ تو لگنا ہے اشکِ خونیں کو
غبار آنکھ میں اڑتا رہے تو اچھا ہے
یہ نہر ورنہ کسی دن چناب ٹھہرے گی
اس آئے روز کی یوگا کا فائدہ بیدلؔ؟
یہ عمر جتنی بڑھے گی، عذاب ٹھہرے گی
بیدل حیدری
No comments:
Post a Comment