ساحل کا ظرف ہے نہ سمندر کی چیز ہے
دراصل خامشی مِرے اندر کی چیز ہے
جیسے ہر ایک ٹوٹتی شے ہے مِرا وجود
جیسے یہ کائنات مِرے گھر کی چیز ہے
کیا کیا نہ راہ کاٹ کےآتا ہے وصل کو
آنکھوں میں لے کے یوں نہ نکل رنگِ اصلِ عشق
اس کو چھپا کے رکھ کہ یہ بھیتر کی چیز ہے
دنیا جسے وجود سمجھتی ہے یہ وجود
میرے لیے تو خاک برابر کی چیز ہے
سچ اور جھوٹ کا تو یہاں تذکرہ ہی کیا
تاریخ اپنے اپنے کیلنڈر کی چیز ہے
ہر شے کو اپنی اصل میں دیکھا تو یہ کھلا
خوشبو خیال رنگ گُلِ تر کی چیز ہے
کیا کوئی بھی چراغ نہ رکھے منڈیر پر
کیا روشنی فقط مہ و اختر کی چیز ہے
آزؔر لہو لہو ہیں یہ آنکھیں اسی لیے
جتنا بھی سرخ رنگ ہے منظر کی چیز ہے
دلاور علی آزر
No comments:
Post a Comment