تھکن سے چور بدن دھول میں اٹا سر تھا
میں جب گرا تو مرے سامنے مرا گھر تھا
تہی ثمر شجر خواب کچھ نڈھال سے تھے
زمیں پہ سوکھی ہوئی پتیوں کا بستر تھا
اسی کی آب تھی اس شب میں روشنی کی لکیر
نہیں کہ گرد ہیں سات آسماں ہی گردش میں
زمیں کی طرح مرے پاؤں میں بھی چکر تھا
میں آج بھی اسی بستی میں جی رہا ہوں جہاں
کسی کے ہاتھ میں خنجر کسی کے پتھر تھا
بڑھا کے ہاتھ خزاں کی رُتوں نے نوچ لیا
ہوا کے جسم پہ جو خوشبوؤں کا زیور تھا
سروں پہ ابر کشا دھوپ کی تمازت تھی
نجیبؔ زیر قدم ریت کا سمندر تھا
نجیب احمد
No comments:
Post a Comment