Tuesday 14 November 2017

تھکن سے چور بدن دھول میں اٹا سر تھا

تھکن سے چور بدن دھول میں اٹا سر تھا 
میں جب گرا تو مرے سامنے مرا گھر تھا 
تہی ثمر شجر خواب کچھ نڈھال سے تھے 
زمیں پہ سوکھی ہوئی پتیوں کا بستر تھا 
اسی کی آب تھی اس شب میں روشنی کی لکیر 
وہ ایک شخص کہ جو کانچ سے بھی کمتر تھا 
نہیں کہ گرد ہیں سات آسماں ہی گردش میں 
زمیں کی طرح مرے پاؤں میں بھی چکر تھا 
میں آج بھی اسی بستی میں جی رہا ہوں جہاں 
کسی کے ہاتھ میں خنجر کسی کے پتھر تھا 
بڑھا کے ہاتھ خزاں کی رُتوں نے نوچ لیا 
ہوا کے جسم پہ جو خوشبوؤں کا زیور تھا 
سروں پہ ابر کشا دھوپ کی تمازت تھی 
نجیبؔ زیر قدم ریت کا سمندر تھا

نجیب احمد

No comments:

Post a Comment