جہاں ہم ہیں
جہاں ہم ہیں
یہاں تو اعتراف درد بھی اک مسئلہ ٹھہرا
محبت کی سزاواری پشیمانی بنی
جور و ستم کی ہمقدم ہو کے
کہ جیسے رات کے پچھلے پہر
تنہائی خاموشی سے مل کے روح کے گم سم دریچے دھڑدھڑاتی ہے
جہاں ہم ہیں
غم دنیا غم وابستگی کی آڑ میں
اکثر تمناؤ ں کے بازو تھام کے دھچکے لگاتا ہے
غم دنیا پرایا پن نہیں تو اپنا پن بھی ہو نہیں سکتا
جہاں ہم ہیں
کفِ افسوس ملنے کی بھی قیمت دینا پڑتی ہے
تاسف بک نہیں سکتا مگر شاید تاسف کی خریداری تو لازم ہے
کوئی دیکھے نہ دیکھے ذات کے شو کیس میں گم سم سجا احساس سے
آنکھیں چرائے منتظر رہتا ہے
نا محسوس لمحوں کا
یہ اک غم ہے مگر یارو یہاں ایسے ہی کتنے اور بھی غم ہیں
جہاں ہم ہیں
فرحت عباس شاہ
No comments:
Post a Comment