Friday 10 November 2017

جہاں ہم ہیں

جہاں ہم ہیں

جہاں ہم ہیں
یہاں تو اعتراف درد بھی اک مسئلہ ٹھہرا
محبت کی سزاواری پشیمانی بنی
جور و ستم کی ہمقدم ہو کے
دلِ پامال کے اجڑے ہوئے رستوں پہ ایسے دندناتی ہے
کہ جیسے رات کے پچھلے پہر
تنہائی خاموشی سے مل کے روح کے گم سم دریچے دھڑدھڑاتی ہے
جہاں ہم ہیں
غم دنیا غم وابستگی کی آڑ میں
اکثر تمناؤ ں کے بازو تھام کے دھچکے لگاتا ہے
غم دنیا پرایا پن نہیں تو اپنا پن بھی ہو نہیں سکتا
جہاں ہم ہیں
کفِ افسوس ملنے کی بھی قیمت دینا پڑتی ہے
تاسف بک نہیں سکتا مگر شاید تاسف کی خریداری تو لازم ہے
کوئی دیکھے نہ دیکھے ذات کے شو کیس میں گم سم سجا احساس سے
آنکھیں چرائے منتظر رہتا ہے
نا محسوس لمحوں کا
یہ اک غم ہے مگر یارو یہاں ایسے ہی کتنے اور بھی غم ہیں
جہاں ہم ہیں

فرحت عباس شاہ

No comments:

Post a Comment