کہاں سے آ گیا کہاں، یہ شام بھی کہاں ہوئی
نہ ہم نفس نہ ہم زباں، یہ شام بھی کہاں ہوئی
بجھی نظر، بجھے قدم، نہ راہبر، نہ ہمسفر
نہ رہگزر نہ کارواں، یہ شام بھی کہاں ہوئی
نہ شمعِ دل نہ شمعِ رُخ، نجومِ شب نہ ماہِ شب
نہ گیسوؤں کی چھاؤں ہے نہ عارضوں کی چاندنی
نہ مانگ کی وہ کہکشاں، یہ شام بھی کہاں ہوئی
حیات غم کے بوجھ سے دبی دبی، تھکی تھکی
لٹی لٹی سی بزمِ جاں، یہ شام بھی کہاں ہوئی
لگی ہے جیسے آگ سی، چتا میں جل رہا ہوں میں
پگھل رہے ہیں جسم و جاں، یہ شام بھی کہاں ہوئی
پیامؔ اس مقام پر ہے آج دل کا کارواں
جہاں زمیں نہ آسماں، یہ شام بھی کہاں ہوئی
پیام فتح پوری
پیام فتحپوری
No comments:
Post a Comment