صبح تلک مر مر کے جیا تھا
جلنے والا ایک دِیا تھا
یاد رہے اس پہلی ہاں کا
ذرا نہ تم نے پاس کیا تھا
آنکھوں نے وہ روئے مبارک
پھر دل آپے سے باہر ہے
مشکل سے تو چاک سِیا تھا
اِس گلدستے میں سڑنے کو
میں نے بھی اک پھول دیا تھا
کیوں الزام صراحی کا ہے
میں نے جب اک جام پیا تھا
وقتِ رخصت مجھ سے بابر
ہر پل نے افسوس کیا تھا
بابر رحمٰن شاہ
No comments:
Post a Comment