Tuesday 14 November 2017

صبح تلک مر مر کے جیا تھا

صبح تلک مر مر کے جیا تھا
جلنے والا ایک دِیا تھا
یاد رہے اس پہلی ہاں کا
ذرا نہ تم نے پاس کیا تھا
آنکھوں نے وہ روئے مبارک
تکتے سمے ہی چوم لیا تھا
پھر دل آپے سے باہر ہے
مشکل سے تو چاک سِیا تھا
اِس گلدستے میں سڑنے کو
میں نے بھی اک پھول دیا تھا
کیوں الزام صراحی کا ہے
میں نے جب اک جام پیا تھا
وقتِ رخصت مجھ سے بابر
ہر پل نے افسوس کیا تھا

بابر رحمٰن شاہ

No comments:

Post a Comment