سیلِ رواں میں بہہ گئے اور یہ آخرش ہوا
اس نے مجھے بھلا دیا، میں نے اسے بھلا دیا
جاز کی نیلگوں سی دُھن، سوزِ دروں میں مطربہ
گیت کے بول بھی حزیں، شامِ فراق غم فزا
کرتی رہی تھی تیری یاد میرے خیال کی نمو
ماہِ تمام پر رہا ابر کا رقص رات بھر
آخرِ شب ہوا تھی گم، چاند بھی تھا تھکا تھکا
اتنے زمن کا فاصلہ تیرے مِرے ہے درمیاں
بات اسی لیے تِری کوئی نہ میں سمجھ سکا
سب کے مزاج کے لیے ایک شراب تو نہیں
میرے لیے مِری خودی، تیرے لیے تِرا خدا
دَور یہ آگہی کا ہے، شور سماعتوں کا ہے
جانے وہ تُو نے کیا کہا، جانے یہ میں نے کیا سنا
یوں تو کہیں نہیں سکوں اور کہیں نہیں اماں
ایک فریب سا مگر پہلو میں تیرے تھا، سو تھا
شعلہ فشاں بہ سطحِ مہر کوئی تلاطمِ شرر
جس کے اثر سے جیب میں فون مِرا بُجھا بُجھا
جانے وہ کیسی یاد تھی جس نے جلا دیا مجھے
خاکِ ضمیرؔ رہ گئی، نفسِ ضمؔیر جل گیا
اویس ضمیر
No comments:
Post a Comment