Sunday 12 November 2017

اگر تم بیچنا چاہو ادائیں بھی وفائیں بھی

اگر تم بیچنا چاہو 
ادائیں بھی وفائیں بھی 
حسیں خوابوں کے رنگوں کی ردائیں بھی 
یہ دنیا ہے 
یہاں آواز بکتی ہے 
یہاں تصویر بکتی ہے 
یہاں پر حرف کی حرمت 
یہاں تحریر بکتی ہے 
یہ بازار جہاں اک بیکراں گہرا سمندر ہے 
یہاں پر کشتیاں ساحل پہ آ کر ڈوب جاتی ہیں 
مسافر مر بھی جاتے ہیں 
مگر رونق نہیں جاتی 
یہ انسانوں کا جنگل ہے 
اور اس جنگل کا سماں ہر وقت رہتا ہے 
اگر تم بیچنا چاہو 
ادائیں بھی وفائیں بھی 
حسیں خوابوں کے رنگوں کی ردائیں بھی 
مرے دل میں بھی اک بازار سجتا ہے 
جہاں پر شام ہوتے ہی ہجوم یاس ہوتا ہے غموں کی بھیڑ لگتی ہے 
کئی یوسف سر بازار بکتے ہیں اگر تم بیچنا چاہو

کرامت بخاری

No comments:

Post a Comment