Monday, 13 November 2017

شکر ہے شیخ سے نہ کام رہا

شکر ہے شیخ سے نہ کام رہا
ان سے بس دور کا سلام رہا
جس پہ خود تھا صلیب کا سایہ
وہ مسیحائے خاص و عام رہا
میرے بس میں تھی جو بھی تبدیلی
اس میں کوشاں میں صبح و شام رہا
میں نے ہر دور میں تمہیں چاہا
چاہے جو بھی تمہارا نام رہا
خامشی سے سنا کِیا سب کچھ
کچھ نہ کہنے کا التزام رہا
اپنے ہاتھوں سے ذات کی تخریب
عمر بھر بس یہی تو کام رہا
ارتقاء کے کئی زمن گزرے
میں جبلّت کا ہی غلام رہا
میں بہت دیر کا گزر آیا
اور تیرا وہیں قیام رہا
کیا مضامین شعر میں آتے
درد ہی حاصلِ کلام رہا
تھا تو وہ میں، مگر وہ میں تو نہ تھا
خود پہ شک سا ہر ایک گام رہا
اس زمانے میں سرخرُو ہے وہی
جس کے دل کا ضمؔیر امام رہا

اویس ضمیر

No comments:

Post a Comment