Tuesday 14 November 2017

جس کی طرف تھا گامزن دشت کا اک سراب تھا

جس کی طرف تھا گامزن، دشت کا اک سراب تھا
مجھ کو شعور تھا مگر، میرا یہی عذاب تھا
فون کی آس رات بھر، صبح ہوا یہ آشکار
تار بِتار قلب تھا، تار مِرا خراب تھا
قوسِ قزح میں عکس تھا، عکس میں یاد تھی کوئی
خواب میں اِک خیال تھا، اور خیال خواب تھا
شانے پہ میرے سَر دھرے، رقص میں تم خموش تھیں
ساز تھے مضمحل مگر قلب میں اضطراب تھا
آؤ کہ مرگِ شوق کی نوحہ گری کریں، کہ ہم
دشت نوردِ ہجر ہیں، وصل ہمیں سراب تھا
قاصر ِفکرِ نو رہا، ذات سے منفعل بھی تھا
عصرِ کہن کی یاد میں حال مِرا خراب تھا
ایک کمال تھا سو تھا، ایک وبال ہے سو ہے
میرا ہنر مِرا خیال،۔ باعثِ صد عذاب تھا

اویس ضمیر

No comments:

Post a Comment