بات جو بھلی نہیں
میں نے وہ کہی نہیں
اِک فریبِ زیست ہے
اور زندگی نہیں
آدمی کے دیس میں
مژدۂ سحر یہ ہے
پَو ابھی پھٹی نہیں
مہر کو لگا گہن
دن میں روشنی نہیں
صیغۂ وصال میں
آج اور ابھی نہیں
قلبِ کہنہ میں کوئی
یاد اب نئی نہیں
غم کو تو دوام ہے
زیست دائمی نہیں
ساغر و سُبو تو ہے
پر وہ بیخودی نہیں
ہے یہ بارِ آگہی
کوئی شے نئی نہیں
دردِ دل ٹھہر گیا
شب ابھی ڈھلی نہیں
میں نے وہ بھی سُن لیا
تُو جو کہہ سکی نہیں
زندگی تو تھم گئی
سانس کیوں تھمی نہیں؟
میں بھی پہلے سا نہیں
تُو بھی پہلے سی نہیں
وہ ضمؔیر بُجھ گیا
دل میں روشنی نہیں
اویس ضمیر
No comments:
Post a Comment