رفوگر
رفوگر
دھیان سے
یہ زخم خنجر کے نہیں
ادھڑے ہوئے وعدوں کی رسوائی کے ہیں
انہیں چھونا نہیں
دردِ مسلسل کے دھڑکنے کو پرکھنے کی ضرورت بھی نہیں ہے
دل ہے آخر
اور پھر زخموں سے چھلنی ہے
کہیں سے لاؤ اس کے لمس کا اطلس
کہیں سے لاؤ اس کا عکسِ مہ تابی
رفوگر
اس کے کنجِ لب سے کوئی مسکراہٹ کا ذرا سا شائبہ
اک واہمہ
اس کی گلابی انگلیوں کا رَس،۔۔ مگر،۔۔ بس
اب نہیں،۔۔ اب کچھ نہیں،۔۔ بے فائدہ ہے
کچے پکے عشق کے مد مقابل
تیسرے درجے کا کینسر
رفوگر
زخم رہنے دو، یہ جیسے ہیں اِنھیں ویسا ہی رہنے دو
مگر،۔۔ بہنے نہ دو
ایسا کرو
لوہے کی تاروں سے اِنہیں آہستگی کے ساتھ سِی دو
اور ملاقاتی کوئی آئے
تو باہر لکھ کے لٹکا دو
کہ چھوٹی عمر میں
اتنے بڑے اور بوڑھے زخموں والے پیشنٹ دیکھنا
اچھا نہیں ہوتا
ایوب خاور
No comments:
Post a Comment