Sunday, 26 November 2017

ایماں کی نمائش ہے سجدے ہیں کہ افسانے

ایماں کی نمائش ہے سجدے ہیں کہ افسانے 
ہیں چاند جبینوں پر اور ذہن میں بت خانے 
کچھ عقل کے متوالے کچھ عشق کے دیوانے 
پرواز کہاں تک ہے کس کی یہ خدا جانے 
کم ظرف کی نیت کیا پگھلا ہوا لوہا ہے 
بھر بھر کے چھلکتے ہیں اکثر یہی پیمانے 
تمہید قیامت ہے اک رات کا ہنگامہ 
احساس کی شمعیں ہیں جذبات کے پروانے 
ساقی کے سلیقے پر حسن دو جہاں صدقے 
سیاروں کی گردش ہے یا دور میں پیمانے 
یہ ایک لڑی کے سب چھٹکے ہوئے موتی ہیں 
کعبے ہی کی شاخیں ہیں بکھرے ہوئے بتخانے 
کچھ تشنہ لب اے ساقی خوددار بھی ہوتے ہیں 
اڑ جائے گی مے رکھے رہ جائیں گے پیمانے 
اک کافر مطلق ہے ظلمت کی جوانی بھی 
بے رحم اندھیرا ہے شمعیں ہیں نہ پروانے 
تاریخ ورق اپنا الٹے گی سراجؔ اک دن 
آفاق میں پھر زندہ ہوں گے مرے افسانے

سراج لکھنوی

No comments:

Post a Comment