ایماں کی نمائش ہے سجدے ہیں کہ افسانے
ہیں چاند جبینوں پر اور ذہن میں بت خانے
کچھ عقل کے متوالے کچھ عشق کے دیوانے
پرواز کہاں تک ہے کس کی یہ خدا جانے
کم ظرف کی نیت کیا پگھلا ہوا لوہا ہے
تمہید قیامت ہے اک رات کا ہنگامہ
احساس کی شمعیں ہیں جذبات کے پروانے
ساقی کے سلیقے پر حسن دو جہاں صدقے
سیاروں کی گردش ہے یا دور میں پیمانے
یہ ایک لڑی کے سب چھٹکے ہوئے موتی ہیں
کعبے ہی کی شاخیں ہیں بکھرے ہوئے بتخانے
کچھ تشنہ لب اے ساقی خوددار بھی ہوتے ہیں
اڑ جائے گی مے رکھے رہ جائیں گے پیمانے
اک کافر مطلق ہے ظلمت کی جوانی بھی
بے رحم اندھیرا ہے شمعیں ہیں نہ پروانے
تاریخ ورق اپنا الٹے گی سراجؔ اک دن
آفاق میں پھر زندہ ہوں گے مرے افسانے
سراج لکھنوی
No comments:
Post a Comment