کسی کے ہاتھ کہاں یہ خزانہ آتا ہے
مِرے عزیز کو ہر اک بہانہ آتا ہے
ذرا سا مل کے دکھاؤ کہ ایسے ملتے ہیں
بہت پتا ہے تمہیں چھوڑ جانا آتا ہے
زمانے ہو گئے دریا تو کہہ گیا تھا مجھے
چھلک نہ جائے مِرا رنج میری آنکھوں سے
تمہیں تو اپنی خوشی کو چھپانا آنا ہے
مجھے تو خیر زمیں کی زباں نہیں آتی
تمہیں مریخ کا قومی ترانہ آتا ہے
ادریس بابر
No comments:
Post a Comment