Sunday 26 November 2017

غزل کے رنگ اگر پیرہن سے نکلے ہیں

غزل کے رنگ اگر پیرہن سے نکلے ہیں
تو کیا یہ پھول بھی اس گل بدن سے نکلے ہیں
کلام کرتی نہیں مجھ سے ایک شب آنکھیں
یہ میرے خواب تو میرے سخن سے نکلے ہیں
نجانے کون سے صحرا میں اب ٹھکانہ ہو
بشکلِ خار تو ہم اس چمن سے نکلے ہیں
لکیر کھینچ دی ہاتھوں کی کچھ لکیروں نے
کہاں خوشی سے ہم اپنے وطن سے نکلے ہیں
سخن کے رسیا کہاں، اور کہاں کے ہم شاعر
یہ آہ و نالے تو دل کی چبھن سے نکلے ہیں

زبیر قیصر

No comments:

Post a Comment