Sunday 26 November 2017

یوں ہراساں ہیں مسافر بستیوں کے درمیاں

یوں ہراساں ہیں مسافر بستیوں کے درمیاں 
ہو گئی ہو شام جیسے جنگلوں کے درمیاں 
زندگی سے اب یہی دو چار پل کا ساتھ ہے 
پانیوں سے آ گیا ہوں دلدلوں کے درمیاں 
چار جانب پھیلتے ہی جا رہے ہیں ریگزار 
تشنگی ہی تشنگی ہے خواہشوں کے درمیاں 
دیکھتے ہی دیکھتے آپس میں دشمن ہو گئے 
خون کا دریا رواں ہے بھائیوں کے درمیاں 
اب تو اس کی زد میں ہے سارا نگر آیا ہوا 
وہ بھی دن تھے سیل تھا جب ساحلوں کے درمیاں 
ادھ کھلی آنکھیں ہیں خاورؔ اور سانسوں کا عذاب 
لاش کی صورت پڑا ہوں کرگسوں کے درمیاں

خاقان خاور

No comments:

Post a Comment