بڑے بڑوں نے تِرے در کی خاک چھانی ہے
اسی پہ ختم خدا جانے حکمرانی ہے
اب ایک خواب کی خاطر جگر کریدے کون
کچھ اک نئی تو نہیں شکل وہ پرانی ہے
بگڑ گئے شرکاء تو مِری ستائش پر
خدا سخن کو جو رکھّے مبالغے سے دور
مِرے قلم سے تمہاری یہ ترجمانی ہے
بھٹکتی پھرتی ہے بادِ نسیم میری طرح
مدام گھر نہ رہے کی یہ لامکانی ہے
مِری صدائے سحر کو نہ جانیے گا شور
جو سچ کہوں تو یہی ہی تو بے زبانی ہے
اگر کہیں نہ سخنور مجھے شہا بابرؔ
کس اور مغر میں سامانِ حکمرانی ہے
بابر رحمٰن شاہ
No comments:
Post a Comment