Sunday 26 November 2017

بڑے بڑوں نے ترے در کی خاک چھانی ہے

بڑے بڑوں نے تِرے در کی خاک چھانی ہے
اسی پہ ختم خدا جانے حکمرانی ہے
اب ایک خواب کی خاطر جگر کریدے کون
کچھ اک نئی تو نہیں شکل وہ پرانی ہے
بگڑ گئے شرکاء تو مِری ستائش پر
تِرے جلوس میں کیا ذم کی قدردانی ہے
خدا سخن کو جو رکھّے مبالغے سے دور
مِرے قلم سے تمہاری یہ ترجمانی ہے
بھٹکتی پھرتی ہے بادِ نسیم میری طرح
مدام گھر نہ رہے کی یہ لامکانی ہے
مِری صدائے سحر کو نہ جانیے گا شور
جو سچ کہوں تو یہی ہی تو بے زبانی ہے
اگر کہیں نہ سخنور مجھے شہا بابرؔ
کس اور مغر میں سامانِ حکمرانی ہے

بابر رحمٰن شاہ

No comments:

Post a Comment