Thursday 30 November 2017

ربط اسیروں کو ابھی اس گل تر سے کم ہے

ربط اسیروں کو ابھی اس گلِ تر سے کم ہے 
ایک رخنہ سا ہے دیوار میں در سے کم ہے 
حرف کی لو میں ادھر اور بڑھا دیتا ہوں 
آپ بتلائیں تو یہ خواب جدھر سے کم ہے 
ہاتھ دنیا کا بھی ہے دل کی خرابی میں بہت 
پھر بھی اے دوست تِری ایک نظر سے کم ہے 
سوچ لو میں بھی ہوا چپ تو گراں گزرے گا 
یہ اندھیرا جو مِرے شور و شرر سے کم ہے 
وہ بجھا جائے تو یہ دل کو جلا دے پھر سے 
شام ہی کون سی راحت میں سحر سے کم ہے 
خاک اتنی نہ اڑائیں تو ہمیں بھی بابرؔ 
دشت اچھا ہے کہ ویرانی میں گھر سے کم ہے

ادریس بابر

No comments:

Post a Comment