کچھ دے اسے رخصت کر کیوں آنکھ جھکا لی ہے
ہاں در پہ تِرے مولا! انشاؔ بھی سوالی ہے
اس بات پہ کیوں اس کی اتنا بھی حجاب آئے
فریاد سے بے بہرہ کشکول سے خالی ہے
شاعر ہے تو ادنیٰ ہے، عاشق ہے تو رسوا ہے
کس دین کا مرشد ہے، کس کیش کا موجد ہے
کس شہر کا شحنہ ہے کس دیس کا والی ہے
تعظیم کو اٹھتے ہیں اس واسطے دل والے
حضرت نے مشیخت کی اک طرح نکالی ہے
آوارہ و سرگرداں کفنی بہ گلو پیچاں
داماں بھی دریدہ ہے گدڑی بھی سنبھالی ہے
آوارہ ہے راہوں میں، دنیا کی نگاہوں میں
عزت بھی مٹا لی ہے تمکیں بھی گنوا لی ہے
آداب سے بے گانہ، در آیا ہے دیوانہ
نے ہاتھ میں تحفہ ہے، نے ساتھ میں ڈالی ہے
بخشش میں تامل ہے اور آنکھ جھکا لی ہے
کچھ در پہ تِرے مولا، یہ بات نرالی ہے
انشاؔ کو بھی رخصت کر، انشاؔ کو بھی کچھ دے دے
انشا سے ہزاروں ہیں، انشا بھی سوالی ہے
ابن انشا
No comments:
Post a Comment