Wednesday, 15 November 2017

یہ سرائے ہے یہاں کس کا ٹھکانا ڈھونڈو

یہ سرائے ہے یہاں کس کا ٹھکانا ڈھونڈو 
یاں تو آتے ہیں مسافر سو چلے جاتے ہیں 
ہاں یہی نام تھا کچھ ایسا ہی چہرا مہرا 
یاد پڑتا ہے کہ آیا تھا مسافر کوئی 
سونے آنگن میں پھرا کرتا تھا تنہا تنہا 
کتنی گہری تھی نگاہوں کی اداسی اس کی 
لوگ کہتے تھے کہ ہو گا کوئی آسیب زدہ 
ہم نے ایسی بھی کوئی بات نہ دیکھی اس میں 
یہ بھی ہمت نہ ہوئی پاس بٹھا کے پوچھیں 
دل یہ کہتا تھا کوئی درد کا مارا ہو گا 
لوٹ آیا ہے جو آواز نہ اس کی پائی 
جانے کس در پہ کسے جا کے پکارا ہوگا 
یاں تو ہر روز کی باتیں ہیں یہ جیتیں ماتیں 
یہ بھی چاہت کے کسی کھیل میں ہارا ہو گا 
ایک تصویر کچھ آپ سے ملتی جلتی 
ایک تحریر تھی پر اس کا تو قصہ چھوڑیں 
چند غزلیں تھیں کہ لکھیں کبھی لکھ کر کاٹیں 
شعر اچھے تھے جو سن لو تو کلیجہ تھامو 
بس یہی مال مسافر کا تھا ہم نے دیکھا 
جانے کس راہ میں کس شخص نے لوٹا اس کو 
گزرا کرتے ہیں سلگتے ہوئے باقی ایام 
لوگ جب آگ لگاتے ہیں بجھاتے بھی بھی نہیں 
اجنبی پیت کے ماروں سے کسی کو کیا کام 
بستیوں والے کبھی ناز اٹھاتے بھی نہیں 
چھین لیتے ہیں کسی شخص کے جی کا آرام 
پھر بلاتے بھی نہیں پاس بٹھاتے بھی نہیں 
ایک دن صبح جو دیکھا تو سرائے میں نہ تھا 
جانے کس دیس گیا ہے وہ دِوانا ڈھونڈو 
ہم سے پوچھو تو نہ آئے گا وہ جانے والا 
تم تو ناحق کو بھٹکنے کا بہانا ڈھونڈو 
یاں تو آیا جو مسافر یوں ہی شب بھر ٹھہرا 
یہ سرائے ہے یہاں کس کا ٹھکانا ڈھونڈو 

ابن انشا

No comments:

Post a Comment