دیکھے کوئی جو چاک گریباں کے پار بھی
آئینۂ خزاں میں ہے عکس بہار بھی
اب ہر نفس ہے بھیگی صداؤں کی اک فصیل
موجِ ہوس تھی گردشِ لیل و نہار بھی
کیا شورشِ جنوں ہے، ذرا کم نہیں ہوا
کتنی عقیدتوں کے جگر چاک ہو گئے
کیا سحر تھا شعورِ نظر کا خمار بھی
جو عرش و فرش پر کبھی آیا نہیں نظر
دیکھا ہے اس کو ہم نے سرِ رہگزار بھی
وہ شورِ حسن تھا دمِ نظارۂ جمال
ہم سن سکے نہ اپنے بدن کی پکار بھی
فارغؔ خیالِ یار سے میں ہم سبو رہا
گزری ہے میکدے میں شبِ انتظار بھی
فارغ بخاری
No comments:
Post a Comment