کسی ثبوت کی اس کو تلاش تھی ہی نہیں
میں مر گیا تھا کہیں میری لاش تھی ہی نہیں
یقین کون کرے، آئینے سے نکلا ہوں
کہ میرے چہرے پہ کوئی خراش تھی ہی نہیں
مکانِ زیست کی تعمیر جیسے تیسے ہوئی
کسی بھی لمحے کی کوئی تراش تھی ہی نہیں
میں تیری چاہ میں دنیا کبھی رہا نہیں ہوں
کہ میرے ذہن میں تُو بد قماش تھی ہی نہیں
وہ لڑکی شہر کی، دو دن میں بور ہونے لگی
کہ میرے گاؤں میں وہ بودوباش تھی ہی نہیں
میں مر گیا تھا کہیں میری لاش تھی ہی نہیں
یقین کون کرے، آئینے سے نکلا ہوں
کہ میرے چہرے پہ کوئی خراش تھی ہی نہیں
مکانِ زیست کی تعمیر جیسے تیسے ہوئی
کسی بھی لمحے کی کوئی تراش تھی ہی نہیں
میں تیری چاہ میں دنیا کبھی رہا نہیں ہوں
کہ میرے ذہن میں تُو بد قماش تھی ہی نہیں
وہ لڑکی شہر کی، دو دن میں بور ہونے لگی
کہ میرے گاؤں میں وہ بودوباش تھی ہی نہیں
زبیر قیصر
No comments:
Post a Comment