Sunday 26 November 2017

کسی ثبوت کی اس کو تلاش تھی ہی نہیں

کسی ثبوت کی اس کو تلاش تھی ہی نہیں
میں مر گیا تھا کہیں میری لاش تھی ہی نہیں
یقین کون کرے، آئینے سے نکلا ہوں
کہ میرے چہرے پہ کوئی خراش تھی ہی نہیں
مکانِ زیست کی تعمیر جیسے تیسے ہوئی
کسی بھی لمحے کی کوئی تراش تھی ہی نہیں
میں تیری چاہ میں دنیا کبھی رہا نہیں ہوں
کہ میرے ذہن میں تُو بد قماش تھی ہی نہیں
وہ لڑکی شہر کی، دو دن میں بور ہونے لگی
کہ میرے گاؤں میں وہ بودوباش تھی ہی نہیں

زبیر قیصر

No comments:

Post a Comment