کیا عدو کیا دوست سب کو بھا گئیں رسوائیاں
کون آ کر ناپتا احساس کی پہنائیاں
اب کسی موسم کی بے رحمی کا کوئی غم نہیں
ہم نے آنکھوں میں سجائی ہیں تِری انگڑائیاں
آپ کیا آئے بہاروں کے دریچے کھل گئے
چاند بن کر کون اترا ہے قبائے جسم میں
جاگ اٹھی ہیں خیال و فکر کی گہرائیاں
دل پہ ہے چھایا ہوا بیدار خوابوں کا طلسم
ذہن کے آنگن میں لہراتی ہیں کچھ پرچھائیاں
آج فارغؔ اجڑے اجڑے سے ہیں غالبؔ کی طرح
یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں
فارغ بخاری
No comments:
Post a Comment