کم سے کم اپنا بھرم تو نہیں کھویا ہوتا
دل کو رونا تھا تو تنہائی میں رویا ہوتا
صبح سے صبح تلک جاگتے ہی عمر کٹی
ایک شب ہی سہی بھر نیند تو سویا ہوتا
ڈھونڈھنا تھا مرے دل کو تو کبھی پلکوں سے
دیکھنا تھا کہ نظر چبھتی ہے کیسے تو کبھی
اس کے پیکر میں نگاہوں کو گڑویا ہوتا
جب یقیں اس کو نہ پانے کا ہوا تو جانا
یہی بہتر تھا کہ پا کر اسے کھویا ہوتا
نہ ملا کوئی بھی غم بانٹنے والا ورنہ
اپنا بوجھ اپنے ہی کاندھوں پہ نہ ڈھویا ہوتا
اس کو پوجا نہ کبھی جس کو تراشا آزر
نام اس طرح تو اپنا نہ ڈبویا ہوتا
راشد آزر
No comments:
Post a Comment