Sunday 26 November 2017

کم سے کم اپنا بھرم تو نہیں کھویا ہوتا

کم سے کم اپنا بھرم تو نہیں کھویا ہوتا 
دل کو رونا تھا تو تنہائی میں رویا ہوتا 
صبح سے صبح تلک جاگتے ہی عمر کٹی 
ایک شب ہی سہی بھر نیند تو سویا ہوتا 
ڈھونڈھنا تھا مرے دل کو تو کبھی پلکوں سے 
میرے اشکوں کے سمندر کو بلویا ہوتا 
دیکھنا تھا کہ نظر چبھتی ہے کیسے تو کبھی 
اس کے پیکر میں نگاہوں کو گڑویا ہوتا 
جب یقیں اس کو نہ پانے کا ہوا تو جانا 
یہی بہتر تھا کہ پا کر اسے کھویا ہوتا 
نہ ملا کوئی بھی غم بانٹنے والا ورنہ 
اپنا بوجھ اپنے ہی کاندھوں پہ نہ ڈھویا ہوتا 
اس کو پوجا نہ کبھی جس کو تراشا آزر
نام اس طرح تو اپنا نہ ڈبویا ہوتا 

راشد آزر

No comments:

Post a Comment