Tuesday 14 November 2017

زرد پتوں کو درختوں سے جدا ہونا ہی تھا

زرد پتوں کو درختوں سے جدا ہونا ہی تھا 
ہم کہ دریا ہیں سمندر کی غذا ہونا ہی تھا 
اور کب تک بے ثمر رکھتی خزاں پیڑوں کے ہاتھ 
رُت بدل جانا تھی یہ، جنگل ہرا ہونا ہی تھا 
روکنے سے کب ہوا کے نرم جھونکے رک سکے 
بند دروازوں کو اک دن نیم وا ہونا ہی تھا 
دھول کب تک جھونکے اک دوسرے کی آنکھ میں 
ایک دن تو جھوٹ سچ کا فیصلہ ہونا ہی تھا 
تیز دھاروں سے بچھڑ کر ان کناروں پر نجیبؔ 
موجِ دریا کی طرح بے دستِ و پا ہونا ہی تھا 

نجیب احمد

No comments:

Post a Comment