Friday 10 November 2017

تجھے اس لیے نکالا

تجھے اس لیے نکالا

تُو پوچھتا ہے تجھے ایسے کیوں نکالا گیا
تمہارا جرم فضاؤں میں کیوں اچھالا گیا
تِرا غرور عدالت میں کیسے ٹالا گیا
تمہارے جھوٹ کے سینے میں کس کا بھالا گیا
بتا دوں تجھ کو درندے تمہارے دانتوں سے
مِرے غریب کسانوں کا خوں ٹپکتا ہے
تمہارا دستِ ستم تاڑ تاڑ کر ظالم
مِرے بچے کھچے گھر بار پر جھپٹتا ہے
مِرے اثاثوں کو جس طرح تُو نے لوٹا ہے
تجھے پتہ ہے کہ دل کتنی بار ٹوٹا ہے
میں خودکشی کے عوض تم سے روٹی مانگتا تھا
دھواں شکم کا مِری بے بسی سے پھوٹا ہے
تمہارے پنجوں میں مزدور کا جگر تڑپا
کہیں پہ بیٹا کہیں باپ بے اثر تڑپا
بتاؤں کس طرح تُو نے ہمارے بچوں سے
نوالے چھین کے کتوں کے منہ میں ڈالے ہیں
تمہارے مکر، ہوس، انتشار کے باعث
ہمارے ہونٹوں پہ تالے دلوں پہ چھالے ہیں
ہماری بھوک کا باعث تمہارا معدہ ہے
کہ جو نگر کا نگر ٹھونس کر نہیں بھرتا
تُو سازشوں سے لیے اقتدار کی خاطر
غضب خدا کا کسی کفر سے نہیں ڈرتا
حسن حسین ہی بن بیٹھتے ہیں بچے ترے
نبیﷺ کی ذات پہ تُو حرف لے کے آیا ہے
تمہارا راج مِری مفلسی کا باعث ہے
تمہارا سایہ نحوست کا کوئی سایہ ہے
تو پوچھتا ہے تجھے ایسے کیوں نکالا ہے
تجھے نکالا گیا اس لیے کہ اک تُو نے
تمام قوم کو مقروض کر کے مارا ہے
کمیشنوں کی غلاظت ہڑپ کری تُو نے
وطن کے سینے میں نیزا سدا اتارا ہے
تُو میرے ملک کے غدار سے جڑا ہوا ہے
تُو میرے دشمنِ خونخوار سے جڑا ہوا ہے
جو بے ضمیروں کے ٹولوں کو پال رکھتا ہے
تُو ایسے ٹی وی سے اخبار سے جڑا ہوا ہے
جو ارد گرد ترے غول ہیں درندوں کے
یہ میری دھرتی کے ہر اک چمن پہ قابض ہیں
یہ بھیڑیے مِرے سارے وطن پہ قابض ہیں
ہے کھا گیا مِری سب بیٹیوں کا داج بھی تُو
نگل گیا ہے مِرا کل بھی میرا آج بھی تُو
تُو جج خرید کے بنتا ہے شہنشاہ یہاں
پولیس والوں کو قاتل بنا دیا تُو نے
صحافیوں کو لفافوں پہ ڈالنے والے
بریف کیسوں کا تُو نے رواج ڈالا ہے
تِرے شعور پہ کرسی کا ہے فتور فقط
دل و دماغ پہ بس ڈالروں کا جالا ہے
تمہارے بچے پلیں لطفِ عیش و عشرت میں
اور ہم نے درد بڑی مشکلوں سے پالا ہے
تُو اب بھی پوچھتا ہے تجھ کو کیوں نکالا ہے
مِرا سوال ہے، جو سامنے نظر آئے
وہ طرزِ منصفی اپنایا کیوں نہیں جاتا
تمہارے جیسے ڈکیتوں کو قاتلوں کو یہاں
کسی چوراہے میں لٹکایا کیوں نہیں جاتا
تُو پوچھتا ہے تجھے ایسے کیوں نکالا گیا

فرحت عباس شاہ

No comments:

Post a Comment