چاندنی نے رات کا موسم جواں جیسے کیا
ہم نے بھی چہرہ فروزاں شیشۂ مے سے کیا
پاسِ خودداری تو ہے لیکن وفا دشمن نہیں
تم نے ہم پر ترکِ الفت کا گماں کیسے کیا
ہم گناہوں کی شریعت سے ہوئے جب آشنا
اس لئے اب ڈوبنے کے خوف سے ہیں بے نیاز
ہم نے آغازِ سفر دریاؤں کی تہہ سے کیا
روشنی اپنی لٹائی ہم نے سورج کی طرح
اندھی راتوں میں اجالا مشعل لے سے کیا
جب شعور آیا تو فارغؔ وسعتِ فن کے لئے
استفادہ ہم نے دنیا کی ہر اک شے سے کیا
فارغ بخاری
No comments:
Post a Comment