ڈھلا ہے حبس کا موسم ذرا تو
چلی ہے صبح سے کچھ کچھ ہوا تو
نشاں چھوڑا ہے اپنے در پہ میں نے
دوبارہ لوٹنا مجھ کو پڑا تو
کہا میں نے کہ کل میں جا رہا ہوں
سحر ہونے کو تھی وہ ہو گئی کیا؟
ذرا پردہ ہٹا کر دیکھنا تو
چلو مانا کہ تم کو عشق ہے، پھر؟
چلو مانا کہ مجھ کو بھی ہوا، تو؟
کہیں گم ہو گیا ہوں چلتے چلتے
ذرا دینا مجھے تم اک صدا تو
عجب سا خوف دل میں اٹھ رہا ہے
کہ کیا ہو گا اگر کچھ ہو گیا تو
مبادا یاد کر بیٹھوں تمہیں بھی
کوئی دن اور میں تنہا رہا تو
مجھے اذنِ تکلم سوچ کر دو
کہیں سچ سچ سبھی کچھ کہہ دیا تو
مِرے اب بال و پر جل ہی نہ جائیں
اگر کچھ اور اونچا میں اڑا تو
فرشتوں کے جلَو میں روزِ محشر
ہُوا جو واقعی ظاہر خدا تو؟
مجھے اس نے کبھی دیکھا ہی ہو گا
بہت دن اس گلی آیا گیا تو
ضمؔیر اس دھیان سے جانا حرم کو
وہاں پر بھی نہ کچھ تم کو مِلا تو؟
اویس ضمیر
No comments:
Post a Comment