Sunday, 26 November 2017

چپ چاپ سے اس دشت میں ظلمت کا سماں ہے

چپ چاپ سے اس دشت میں ظلمت کا سماں ہے 
پتھرائی ہوئی آنکھ میں شعلہ بھی کہاں ہے 
سوکھے ہوئے پتوں کو جو روندو تو صدا دیں 
پستے ہوئے انسان کے منہ میں تو زباں ہے 
عظمت کی بلندی پہ میں جس سمت گیا ہوں 
دیکھا ہے تِرے پاؤں کا پہلے ہی نشاں ہے 
آندھی جو چلی ساتھ اڑا لے گئی سب کو 
کیا جانیے اس دشت میں اب کون کہاں ہے 
روکیں بھی تو خاورؔ اسے روکا نہیں جاتا 
جھونکے پہ مجھے عمر گریزاں کا گماں ہے 

خاقان خاور

No comments:

Post a Comment