Tuesday 14 November 2017

ناؤ خستہ بھی نہ تھی موج میں دریا بھی نہ تھا

ناؤ خستہ بھی نہ تھی موج میں دریا بھی نہ تھا 
پار اترتا تھا مگر تجھ پہ بھروسہ بھی نہ تھا 
زندگی ہاتھ نہ دے پائی مرے ہاتھوں میں 
ساتھ جانا بھی نہ تھا ہاتھ چھڑانا بھی نہ تھا 
جن پہ اک عمر چلا تھا انہی رستوں پہ کہیں 
واپس آیا تو مرا نقش کف پا بھی نہ تھا 
غرق دنیا کے لیے دست دعا کیا اٹھتے 
کوئی اس گھر میں دعا مانگنے والا بھی نہ تھا 
ہر کوئی میرا خریدار نظر آیا مجھے 
چاک پر میں نے ابھی خود کو ابھارا بھی نہ تھا 
پھیلتا جاتا ہے ہر سانس رگ و پے میں نجیبؔ 
ایک صحرا جو ابھی راہ میں آیا بھی نہ تھا

نجیب احمد

No comments:

Post a Comment