Friday 3 November 2017

شہر آشوب

شہر آشوب

اپنی بود و باش نہ پوچھو
ہم سب بے توقیر ہوئے 
کون گریباں چاک نہیں ہے 
ہم ہوئے، تم ہوئے، میرؔ ہوئے
سہمی سہمی دیواروں میں
سایوں جیسے رہتے ہیں
اس گھر میں آسیب بسا ہے 
عامل کامل رہتے ہیں
دیکھنے والوں نے دیکھا ہے 
اک شب جب شبخون پڑا
گلیوں میں بارود کی بُو تھی
کلیوں پر سب خون پڑا
اب کے غیر نہیں تھا کوئی
گھر والے دشمن نکلے 
جن کو برسوں دودھ پلایا
ان ناگوں کے پھن نکلے
رکھوالوں کی نیت بدلی
گھر کے مالک بن بیٹھے 
جو غاصب تھے، محسن کش تھے 
صوفی سالک بن بیٹھے
جو آواز جہاں سے اٹھی
اُس پر تِیر تَبر برسے 
ایسے ہونٹ سلے لوگوں کے 
سرگوشی کو بیے ترسے
گلی گلی میں بندی خانے 
چوکی چوکی میں مقتل ہیں
جلادوں سے بھی بڑھ چڑھ کر
منصف وحشی پاگل ہیں
کتنے بے گنہوں کے گلے پر
روز کمندیں پڑتی ہیں
بوڑھے بچے گھروں سے غائب
بیبیاں جیل میں سڑتی ہیں
اس کے ناخن کھینچ لئے ہیں
اس کے بدن کو داغ دیا
گھر گھر قبریں در در لاشیں
بجھا ہر ایک چراغ دیا
ماؤں کے ہونٹوں پر ہیں نوحے 
اور بہنیں کُرلاتی ہیں
رات کی تاریکی میں ہوائیں
کیسے سندیسے لاتی ہیں
قاتل اور درباری اس کے 
اپنی ہٹ پر قائم ہیں
ہم سب چور لٹیرے ڈاکو
ہم سب کے سب مجرم ہیں
ہمیں میں کوئی صبح سویرے 
کھیت میں مُردہ پایا گیا
ہمیں سا دہشت گرد تھا کوئی
چھپ کے جسے دفنایا گیا
سارا شہر ہے مُردہ خانہ
کون اس بھید کو جانے گا
ہم سارے لا وارث لاشیں
کون ہمیں پہچانے گا

احمد فراز

No comments:

Post a Comment