عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ
شکریہ
سوچتا ہوں کہ اسی قوم کے وارث ہم ہیں
جس نے اولاد پیمبر کا تماشا دیکھا
جس نے سادات کے خیموں کی طنابیں توڑیں
جس نے لختِ دل حیدر کو تڑپتا دیکھا
برسرِ عام سکینہ کی نقابیں الٹیں
امِ کلثوم کے چہرے پہ طمانچے مارے
شام میں زنیب و صغریٰ کا تماشا دیکھا
شہ کونین کی بیٹی کا جگر چاک کیا
سبطِ پیغمبرِ اسلام کا لاشا دیکھا
دیدۂ قاسم و عباس کے آنسو لوٹے
قلب پر عابد بیمار کے چرکا دیکھا
توڑ کر اکبر و اصغر کی رگوں پر خنجر
جورِ دوراں کا بہیمانہ تماشا دیکھا
بھائی کی نعش سے ہمشیر لپٹ کر روئی
فوج کے سامنے شبیر کو تنہا دیکھا
پھاڑ کے گنبدِ خضریٰ کے مکیں کا پرچم
عرش سے فرش تلک حشر کا نقشا دیکھا
قلبِ اسلام میں صدمات کے خنجر بھونکے
کربلا میں کفِ قاتل کا تماشا دیکھا
ابوسفیان کے پوتے کی غلامی کرلی
خود فرشتوں کو دِنایت سے پنپتا دیکھا
اے میری قوم ترے حسنِ کمالات کی خیر
تو نے جو کچھ بھی دکھایا وہی نقشا دیکھا
یہ سبھی کیوں ہے یہ کیا ہے مجھے اب سوچنے دے
کوئی تیرا بھی خدا ہے مجھے اب سوچنے دے
آغا شورش کاشمیری
No comments:
Post a Comment