Tuesday, 31 October 2017

کچھ تو ٹھہرے ہوئے دریا میں روانی کریں ہم

کچھ تو ٹھہرے ہوئے دریا میں روانی کریں ہم 
آؤ دنیا کی حقیقت کو کہانی کریں ہم 
اپنے موجود میں ملتے ہی نہیں ہیں ہم لوگ 
جو ہے معدوم اسے اپنی نشانی کریں ہم 
پہلے اک یار بنائیں کوئی اس کے جیسا 
اور پھر ایجاد کوئی دشمن جانی کریں ہم 
جب نیا کام ہی کرنے کو نہیں ہے کوئی 
بیٹھے بیٹھے یوں ہی اک چیز پرانی کریں ہم 
ہجر کے دن تو ہوئے ختم بڑی دھوم کے ساتھ 
وصل کی رات ہے کیوں مرثیہ خوانی کریں ہم

سالم سلیم

No comments:

Post a Comment