ہزار حوصلہ یوں تو جہان بھر سے ملا
بڑھاوا اور ہی لیکن تِری نظر سے ملا
ہوا میں اس نے اشارہ کوئی اچھال دیا
چلو یہ پھول تو اک شاخِ بے ثمر سے ملا
قدم قدم پہ ہے میرے لہو کی گل کاری
سفر میں ہم بھی پڑاؤ کے کب رہے قائل
نہ پھول پھل ہی نہ سایہ کسی شجر سے ملا
خدا کے واسطے بخشش نہ دیں مِرا حق دیں
ملا ہی کیا جو کسی سے اگر مگر سے ملا
ابھی ابھی تو میاں تو نے آنکھ کھولی ہے
ابھی نہ آنکھ کسی چشم معتبر سے ملا
وہ ضد میں آپ ہی اپنے خلاف جاتا ہے
رؤف خیر کو ہر اعتبار شر سے ملا
رؤف خیر
No comments:
Post a Comment