چشمِ ظاہر سے رخِ یار کا پردہ دیکھا
آنکھیں جب پھوٹ گئیں تب یہ تماشا دیکھا
دیکھنا یہ ہے کہ ہم نے تمہیں کیسا چاہا
پوچھنا یہ ہے کہ تم نے ہمیں کیسا دیکھا
پھر جلاؤ گے کبھی طالبِ دیدار کا خط
کان وہ کان ہے جس نے تِری آواز سنی
آنکھ وہ آنکھ ہے جس نے تِرا جلوہ دیکھا
آپ کہتے ہیں کہ جا دیکھ لیا دل تیرا
کہیۓ تو اپنے سوا دل میں مِرے کیا دیکھا
تم خبر بھی نہ ہوئے خانہ بدوشوں سے کبھی
ہم نے گھر پھونک دیا سب نے تماشا دیکھا
جن سے ہوں سوختہ جانوں کے کلیجے ٹھنڈے
انہیں جلووں سے حسنؔ طور کو جلتا دیکھا
حسن رضا بریلوی
No comments:
Post a Comment