Friday 20 October 2017

اس کا نہیں ہے غم کوئ جاں سے اگر گزر گئے

اس کا نہیں ہے غم کوئی جاں سے اگر گزر گئے 
دکھ کی اندھیری قبر پر ہم بھی چراغ دھر گئے 
شان و شکوہ کیا ہوئے، قیصر و جَم کدھر گئے 
تخت الٹ الٹ گئے، تاج بکھر بکھر گئے 
فکرِ معاش نے سبھی جذبوں کو سرد کر دیا 
سڑکوں پہ دن گزر گیا ہو کے نڈھال گھر گئے 
تندیٔ سیلِ وقت میں یہ بھی ہے کوئی زندگی 
صبح ہوئی تو جی اٹھے رات ہوئی تو مر گئے 
گرد سفر میں کھو گئے ایسے ہزاروں راہرو 
راہ میں جو ٹھہر گئے آندھیوں سے جو ڈر گئے 
آپ کا تو مقام تھا دل کے بلند تخت پر 
آپ کو آج کیا ہوا دل سے مِرے اتر گئے 
کھل کے رہیں گے دیکھنا چار سو روشنی کے پھول 
رات کے دشت کی طرف نقش گر سحر گئے 
خاک میں تیری مل گئی فیض کے جسم کی ضیا 
اب تو دیار مہ وشاں! قرض تمام اتر گئے

حزیں لدھیانوی

No comments:

Post a Comment