Thursday, 19 October 2017

اس نے مارا رخ روشن کی دکھا تاب مجھے

اس نے مارا رخِ روشن کی دکھا تاب مجھے
چاہیۓ بہرِ کفن چادرِ مہتاب مجھے
کچھ نہیں چاہیۓ تجہیز کا اسباب مجھے
عشق نے کشتہ کیا صورتِ سیماب مجھے
کل جہاں سے کہ اٹھا لائے تھے احباب مجھے
لے چلا آج وہیں پھر دلِ بے تاب مجھے
چمنِ دہر میں جوں سبزۂ شمشیر ہوں میں
آب کی جاۓ دیا کرتی ہے زہراب مجھے
میں وہ مجنوں ہوں کہ مجنوں بھی ہمیشہ خط میں
قبلہ و کعبہ لکھا کرتا تھا القاب مجھے
جو مرے واقفِ جوہر ہیں وہ رکھتے ہیں عزیز
تیرہ بختی میں بھی جوں تیغِ سیہ تاب مجھے
کنجِ تنہائی میں دیتا ہوں دلاسے کیا کیا 
دلِ بیتاب کو میں، اور دلِ بے تاب مجھے
(قطعہ)
میں نہ تڑپا جو دمِ ذبح تو یہ باعث تھا
کہ رہا مدِ نظر عشق کا آداب مجھے
ورنہ وہ شوخ کہ جو گل سے بھی نازک ہو سوا
لیوے اس طرح سے زانو کے تلے داب مجھے
ہو گیا جلوۂ انجم مری آنکھوں میں نمک
کیونکہ آئی شبِ ہجراں میں کہو خواب مجھے

ابراہیم ذوق

No comments:

Post a Comment